حضرت فقیر پروفیسر باغ حسین کمالؒ

سلسلہ اویسیہ کمالیہ کے بانی حضرت فقیر پروفیسرباغ حسین کمالؔ المعروف حضرت جیؒ ضلع چکوال کے ایک معروف موضع پنوال میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی تاریخ ولادت 22؍ مارچ 1937ء ہے۔آپؒ کا اصل نام باغ حسین تھا، ادبی سفر کے آغاز پر آپؒ نے کمالؔ   تخلّص کیا جو آپؒ ایسے باکمال صوفی کے نام کے ساتھ جڑ کر اور بھی بامعنی اور خوش آہنگ لگتا ہے۔آپؒ نے 1955ء میں گورنمنٹ ہائی سکول چکوال سے میٹرک اور 1957ء میں گورنمنٹ کالج چکوال سے ایف۔اے کے امتحان پاس کیے جبکہ آپؒ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بطور پرائیویٹ طالب علم 1963ء میں بی۔اے، 1966ء میں ایم۔اے اردو ، 1967ء میں بی۔ایڈ اور 1974ء میں ایم۔اے پنجابی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آپؒ  کا شاندار تعلیمی ریکارڈ آپؒ  کی علم دوستی کا بیّن ثبوت ہے ۔ ایک قلم کار کی حیثیت سے آپؒ نے دھنی تہذیب اور پنجابی ادب و ثقافت پر نمایاں اثرات مرتب کیے۔ آپؒ  کی صحافیانہ خدمات دس برس کے عرصہ بمطابق 1960ء تا 1970ء پر محیط ہیں۔

 اس عرصہ میں آپؒ نامہ نگاری، ادبی ڈائری اور مضامین کے ذریعے چکوال کی ادبی، ثقافتی اور تہذیبی نمائندگی فرماتے رہے۔ علاوہ ازیں مجلسِ شاہ مرادؒ ، بزمِ ادبیات چکوال، اردو مجلس چکوال اور ضلعی تعلیمی مشاورتی کونسل میں ایک دانشور کے طورپر آپؒ  کی ناقابلِ فراموش خدمات چکوال کی علمی و ادبی تاریخ کا مستند حوالہ ہیں۔ آپؒ نے ان مجلسوں میں ادب و ثقافت کے فروغ کے سلسلہ میں رہنما کردار ادا کیا اور آئندہ نسلوں کے لیے قبلہ نما کی حیثیت اختیار کر گئے۔ آج بھی چکوال کی ادبی و فکری فضا پر آپؒ کے دانشورانہ نقطۂ نظر کے اثرات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپؒ نے اُس وقت چکوال میں چراغِ سخن روشن کیا جب اس خطہ کی ادبی تاریخ پوری طرح اہلِ ذوق و نظر کے سامنے نہیں تھی۔ آپؒ نے اپنے دانشور احباب کی مدد سے چکوال کے اہلِ ادب کی قومی سطح پر شناخت کا فريضہ سرانجام دیا اور اس خطہ کی ذہنی کشادگی کی نشاندہی فرمائی ۔

یوں تو حضرت فقیر پروفیسر باغ حسین کمالؒ  کی بہت سی جہات ہیں لیکن آپؒ  کا خمیر دراصل تصوّف کی مطہّر مٹی سے اُٹھا تھا۔ عبادت و ریاضت اور زُہد و تقویٰ آپؒ کے خون میں تھا۔سو یہی وہ حقیقی جادہ تھا جس پر آپؒ تاحیات گامزن رہے۔ آپؒ نے 29؍ جولائی 1975ء کو حضرت مولانا اللہ یار خانؒ کے حلقۂ ذکر میں شمولیت اختیار کی اور معرفتِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ کی بدولت تیزی سے روحانی درجات طے کرنے لگے اور ایک سال سے بھی کم عرصہ میں آپ کو حضور نبی کریمؐ کے دستِ مبارک پر روحانی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ 1984ء میں حضرت اللہ یار خانؒ کے وصال کے بعد اویسی طریق پر آپؒ  کی روحانی تربیت کا آغاز ہوا۔ اور 8؍اپریل 1984ء کو آپ منصبِ قطبِ وحدت پر فائز ہوئے۔ یہی دن سلسلہ اویسیہ کمالیہ کی ابتدا کا دن ہے۔ 8؍فروری 1985ء کو اعلانِ خلافت کے حکم کے ساتھ ہی آپ ؒ   کو مقامِ عبدیت کے عظیم منصب پر فائز کیا گیا۔

اس منصب پر آج تک جتنے لوگ متمکن رہے ہیں ان کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جا سکتی ہے۔ یہ عطا صرف عشقِ رسول ﷺ ہی کا کرشمہ ہے جو کثرتِ درود شریف کی صورت میں سامنے آیا۔ دربارِنبوی ﷺ سے ارشاد کی گئی بشارت پوری ہوئی، وظیفۂ درود لحظہ بہ لحظہ طلوع ہو کر نصف النہار تک پہنچ گیا، سرکارِ اقدس ﷺ کا ذکرِپاک اس قدر بلند ہوا کہ قدسیوں نے حضرت جیؒ اور ان کے متوسّلین کی پاک زبانوں سے نکلے ہوئے درود شریف پر ابدی رشک کا اظہار کیا۔ آغازِ سفر سے رحلت تک آپؒ ہر لحظہ عرقِ درود شریف سے اپنے لبوں کو مشک بار کیے رہتے اور اپنے مریدین (جنہیں آپؒ ساتھی کہتے تھے) کو خصوصیت کے ساتھ وہی درود پاک پڑھنے کی تلقین فرماتے جو بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔آپؒ نے اپنے روحانی سفر کی روداد ’’حالِ سفر‘‘ میں قلم بند کی ہے۔ یہ کتاب آپؒ کے اس باسعادت سفر کی داستان ہے جو عاشقانِ الٰہی اور خادمانِ رسالت مآبؐ کے دلوں کو مہمیز کرتی ہے۔ اس درسِ ہدایت میں حضرت جیؒ نے وعظ و تبلیغ کی عام روش سے ہٹ کر بہت سہل زبان اور خوبصورت انداز میں قلوب کو منوّر کرنے کے آداب تحریر فرمائے ہیں۔

:مختصر تعارفی خاکہ

باغ حُسین کمال

:نام

قاضی حسن دین

:ولدیت

؍22، مارچ 1937ء

تاریخ پیدائش

پنوال (چکوال)

:مقام پیدائش

؍31، دسمبر 2000ء

:تاریخ وفات

پنوال (چکوال)

:مدفن

:تصانیف سن اشاعت

٭1966ء

کلامِ شاہ مراد (شریک مرتب)

٭1987ء

حالِ سفر (تصوف و سلوک)

٭1990ء

حُسنِ طلب (اردو شاعری)

٭1990ء
سکدیاں رُوحاں (پنجابی شاعری)

٭2011ء

زرِ باغ (شعری کلیات)

٭2013ء

متاعِ کمال (نثری تخلیقات)

٭1980ء

لو ک گاؤن