حضرت فقیر تابش کمال

تابش کمال گذشتہ صدی کی آخری دہائی کے اُردو/پنجابی شعراء میں امتیازی طور پر قابلِ ذکر شاعر ہیں۔ اُنہوں نے اُردو میں خصوصاً نظم اور پنجابی میں نمایاں طور پر کافی کی تنومند روایت کو جدیدحسیّت سے ہم آہنگ کر کے آگے بڑھایا  ہے۔ اُن کی اُردو نظمیں کم و بیش ہر موضوع کو محیط ہیں۔ اس فن میں اُن کا اختصاص وہ مٹھاس ہے جو معدودے چند شعراء ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ پنجابی کافی میں تابش کمال نے حیرت انگیز طور پر بابا فریدؒ سے لے کر خواجہ فریدؒ  تک ہر بڑے شاعر سے تخلیقی طور پر استفادہ کرتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت پر آنچ نہیں آنے دی۔ اُن کی کافیاں سوزوگداز کے علاوہ جدید فکر کا احاطہ بھی کرتی ہیں۔ 

تابش کمال نے جامعہ پنجاب سے اُردو اور پنجابی ادبیات میں ایم ۔اے کی اسناد حاصل کیں۔ تاحال آپ کے چار مجموعہ ہائے کلام’’ منظر منظر دھوپ‘‘ (اردو۔تین ایڈیشن)، ’’ شام پئی بن شام‘‘ (پنجابی۔تین ایڈیشن)،’’ مہاجر پرندوں کی نظمیں‘‘(اردو۔ دو ایڈیشن) اور اردو نعتیہ کلام’’صَلِ علیٰ‘‘ شائع ہو کراہلِ ادب سے داد وصول کر چکے ہیں جبکہ’’ لوحِ کمال‘‘،’’زرِ باغ‘‘ اور ’’متاعِ کمال‘‘ آپ کے حسنِ ترتیب کا مرقع ہیں۔ آپ حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی اور پاکستان رائٹرز گلڈ پنجاب کے رکن بھی ہیں۔مختلف جامعات میں آپ کے فن و شخصیت پر ایم۔اے ، ایم ۔فل اور پی ا۔یچ۔ڈی پروگراموں کے تحت تحقیقی کام آپ کی علمی و ادبی عظمتوں کا اعتراف ہے۔آپ کے روحانی سفر پر مشتمل معرکۃالآراء تصنیف ’’سیر الافلاک‘‘نہ صرف تصوف و سلوک کی کتب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے بلکہ رواں نثری اسلوب کے حامل ادیب سے بھی متعارف کرواتی ہے۔

ایک طرف تصوف اور دوسری طرف شاعری، دونوں میدانوں میں آپ کی کامرانی کا ثبوت یہ ہے کہ جہاں پاکستان کے جید اہلِ قلم احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، آفتاب اقبال شمیم، ضیاء جالندھری، شریف کنجاہی،حفیظ تائب، ڈاکٹر خورشید رضوی، عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، احسان اکبر، سید منظور الکونین، یونس ادیب، حفیظ الرحمن احسن، علی محمد فرشی، یوسف حسن اور دیگر ممتاز اہل قلم نے آپ کی تخلیقات پر قلم اٹھایا وہاں اہلِ تصوف نے بھی آپ کے روحانی کمالات کو تسلیم کیا۔ تاہم اس سلسلہ میں سب سے مستند حوالہ خود آپ کے شیخِ مکرم حضرت باغ حسین کمالؒ  کا ہے جنہوں نے 1 ستمبر ۱۹۹۲ء میں ایک خط کے ذریعے یوں سند عطا فرمائی۔

۔’’۔۔ البتہ  روحانی اعتبار سے آپ کو ایک ایسے منصب پر فائز کیا گیا ہے کہ حضراتِ اہلِ برزخ آپ پر رشک کرتے ہیں اور اس لحاظ سے مجھے آپ پر ناز ہے۔‘‘ آپ اپنے والد اور شیخ حضرت باغ حسین کمالؒ   کو عطا کردہ ’’سلسلہ اویسیہ کمالیہ‘‘ کے موجود ہ سجادہ نشین ہیں اور پنڈی روڈ (کمال آباد)، چکوال پر قائم کردہ درگاہ ’’دارالکمال‘‘ میں سالکین کے دلوں میں عشقِ الٰہی اور حبِ رسولﷺکی شمع فروزاں کرنے کا فريضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔ اپنے شیخِ محترم کی مانند آپ بھی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ پھول، شعر، کتاب اور سُر آپ کے خمیرمیں ہیں توعشق و تصوف آپ کی روح کے اجزاء ہیں۔ ان سب کے ہم آہنگ ہونے سے ایک ایسی دلآویز شخصیت وجود میں آئی ہے جس کا تصور ہی قلب و نظر کو طراوت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گردشِ دوراں کے ستائے لوگ جب فقیر کے آستانے پر قدم رکھتے ہیں تو کوئل کی کوک اور بلبل کے چہچہے ان کا استقبال کرتے ہیں اور گل رنگ فضا آنکھوں سے دل میں اتر کر تمام کلفتوں کو دھو ڈالتی ہے۔ اس پر مستزاد آپ کی نشاط انگیز ملاقات،درود شریف اور بسم اللہ شریف کی پر نور محفل اور دورانِ ذکر قلب پر اسمِ ذات کی سرمدی ضربات روح کو وہ پرواز عطا کرتی ہیں کہ بسا اوقات تمام حجابات اٹھتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ حضرت تابش کمال کے شیخِ کامل ہونے اور سلسلۂ عالیہ پر نبی کریم ﷺ کی روحانی شفقتوں کی ایک کھلی دلیل ہے کہ ’’دارالکمال‘‘ میں آنے والے انتہائی شکستہ دل لوگ بھی واپسی پر خود کو بااعتماد، مضبوط اورزندگی سے بھرپور محسوس کرتے ہیں۔ دلوں کا زنگ دور کرنے اور آئینہ دل میں خالقِ حقیقی کی محبت جاگزیں کرنے کی یہ بے مثل محفل ہر اتوار باقاعدگی سے دن ایک سے دو بجے منعقد کی جاتی ہے جس میں شرکت کے لیے ہر خاص و عام کے لیے صلائے عام  ہے۔

:مختصر تعارفی خاکہ

تابش کمال

:نام

باغ حسین کمال

:ولدیت

؍15، اپریل 1965ء

تاریخ پیدائش

پنوال (چکوال)

:مقام پیدائش

:تصانیف سن اشاعت

٭1998ء

منظر منظر دھوپ (اردو شاعری)

٭2002ء

شام پئی بن شام (پنجابی شاعری)

٭2005ء
مہاجر پرندوں کی نظمیں(جدید اردو نظم)
٭2006ء
سیرالافلاک (تصوف و سلوک)
٭2012ء
صل علی(اردو نعت)
٭2019ء

پیار پیام(منظوم پنجابی خط)

٭2020ء

نورِ مبیں(اردو نعت)

٭2022ء

ساہ دی سرگم (پنجابی غزل)

(زیر طبع)

آسمان سے باہر (اردو غزل)

(زیر طبع)

دکھ دے بیلے(پنجابی غزل)

(زیر طبع)

تینڈے رنگ رنگی آں (پنجابی کافی)